Tinker Bell

Add To collaction

وہ شخص آخرش مجھے بےجان کر گیا

قسط # 1

وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی ، بیٹھک سے آتی آوازوں نے اسے رکنے پر مجبور کر دیا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کون ہے، نسرین بیگم  کی آواز  حقیقی دنیا میں لے آئی۔

 ' آؤ شارمین۔' نسرین بیگم کے کہنے پر وہ اندر آئی۔ جہاں تین خواتین بیٹھی تھیں۔ 

شارمین نے آدب سے سلام کیا جس کا جواب بڑی ہی گرم جوشی سے دیا گیا۔ ان میں سے ایک  خاتون نے شارمین کو اپنے پاس بٹھا کر پیار کیا جو کہ ہماری شارمین  کو بلکل بھی پسند نہیں آیا پر مروتاً  چپ کر گئی۔

' غزالہ یہ ہے شارمین۔ نسرین کی بیٹی۔' خاتون جن کا نام فرزانہ بیگم تھا اپنے ساتھ بیٹھی خاتون سے مخاطب ہوئیں۔

' اچھا ماشاءاللہ۔' غزالہ بیگم نے شارمین کو پیار کیا۔

' کیسی ہیں شارمین۔'

'میں ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں۔' اپنی بےزاریت کو چُھپاتے ہوئے خوش اخلاقی سے کہا گیا۔

' میں بھی ٹھیک۔ یہ میری بہو ہے اقراء۔' غزالہ بیگم نے اپنے ساتھ بیٹھی خوبصورت سی لڑکی کا تعارف کروایا۔ شارمین نے مسکرا کر سر ہلایا۔

'آپ کی بہو ہے تو مجھے کیوں بتا رہی ہیں؟' بظاہر مسکراتے ہوئے دل میں وہ خود سے مخاطب ہوئی۔

اقراء شارمین سے پڑھائی کے بارے میں پوچھ رہی تھی اور وہ انہیں مختصر بتا رہی تھی۔ انداز صاف جان چھڑانے والا تھا، جسے کسی اور نے تو نہیں لیکن شارمین کی والدہ نے بخوبی نوٹ کر لیا۔

' شارمین  بیٹا جاؤ اور فریش ہو جاؤ۔' نسرین بیگم نے شارمین کی مشکل آسان کرتے ہوئے کہا۔

' جی مما۔ ' تابعداری سے سر ہلاتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے کمرے کی جانب چل دی۔

عابر اعظم  کے دو بچے تھے ۔ شارمین عابر اور فہد عابر۔ شارمین عابر اعظم کی پہلی اولاد  گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ شارمین  ایک خوبصورت لڑکی  تھی۔ مناسب قد اور صاف رنگت۔ خوبصورت ہلکی بھوری غزالی آنکھیں اس پر لمبی خوبصورت پلکیں اس  کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی تھی۔ وہ bs   کی اسٹودنٹ تھی۔ اپنی کلاس کی ٹاپر ہونے کی  وجہ سے وہ کسی حد تک مغرور بھی تھی۔ شارمین کی شخصیت کی وجہ سے ہر کوئی اس سے دوستی کا خواہا تھا۔ مگر شارمین نے یونیورسٹی میں کوئی دوست نہیں بنائی۔ فہد بھی اکلوتا تھا۔ لیکن جو پروٹوکول  شارمین کو لڑکی ہو کر ملتے تھے  فہد کو کم ہی ملتے تھے۔ فہد  میٹرک  کا اسٹوڈنٹ تھا۔

*******************

' فہد یہ مہمان کون ہیں ؟' شارمین  نے اپنے بھائی سے پوچھا جو موبائل میں پب جی کھیل رہا تھا ۔

' کیا پتا۔' فہد نے  کندھے اچکا کر جان چھڑانے والنے انداز میں کہا

' تم اس پب جی کی جان نہ چھوڑنا۔ جب دیکھو موبائل سے چپکے رہتے ہو۔ آس پاس کی کوئی خبر ہی نہیں  ہوتی۔  پتا نہیں کس منحوس نے یہ گیم بنائی ہے۔' شارمین کا پارہ ہائ ہوگیا۔ پر فہد ٹس سے مس نہ ہوا۔

' تمہیں تو میں بعد میں دیکھوں گی'۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی،  نسرین بیگم  کمرے  میں داخل ہوئیں۔ 

' شارمین  تم نے کھانا کھا لیا؟'

' نہیں مما۔ کھانے میں کیا ہے؟' شارمین نے پانی پیتے ہوئے پوچھا۔

' پاستا بنایا ہے۔ اگر ٹھنڈا ہو گیا ہو تو گرم کر لو۔' نسرین بیگم نے کشن اٹھاتے ہوئے کہا۔

' اوکے میں کر لوںگی۔ ویسے مما یہ کون تھیں؟' شارمین نے پوچھا۔

' مہمان تھیں اور کون تھیں۔ اب جلدی سے جاؤ۔' نسرین بیگم نے آنکھیں دکھاتے ہوتے ہوئے کہا۔

' جی اچھا جاتی ہوں۔' شارمین  منہ بنا کر کچن میں چلی گئی۔

' ویسے مما یہ پاپا جانی کے رشتہ دار تھے یا آپ کے؟' شارمین  کے جانے کے بعد فہد نے نسرین بیگم سے پوچھا۔ 

' نہ میرے نہ تمھارے پاپا کے، وہ شارمین کے رشتے کے لئے آئیں تھیں۔'  نسرین بیگم نے بیٹھتے ہوئے کہا  تو فہد جو پب جی میں گھسا ہوا تھا تقریبا اچھل پرا۔ 

' یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ اور ان کی ہمت بھی کیسے ہوئی یہاں آنے کی۔'

فہد جذباتی ہو گیا۔ اور کیوں نہ ہو تا آخر اس کی پیاری بہن کی  بات ہو رہی تھی۔

' تم چپ کرو، یہ بڑوں کی باتیں ہیں ان میں نہ بولو۔اور فلحال شارمین  کو کچھ نہ بتانا۔' شارمین کو آتا دیکھ کر نسرین بیگم نے فہد کو تنبیہہ کی۔

' مما آپ کو پتا ہے آج ہمارے گروپ کا پرکٹیکل تھا۔ لیب میں وہ کارنامے تو نہیں ہوئے نہ۔' شارمین پاستا کھاتے ہوئے بتانے لگی۔

' تمہیں کیا ہوا؟'

شارمین نے بات کرتے ہوئے صدمے کی سی کیفیت میں بیٹھے فہد سے پوچھا۔ 

' کچھ نہیں عیشا، آوٹ ہو گیا ہوں۔' ایک نظر نسرین  بیگم کو دیکھتے ہوئے، فہد موبائل وہی پر رکھ کر کمرے سے چلا گیا۔

 شارمین کی نظروں نے دور تک پیچھا کیا۔

‘ توبہ ہے، گیم تو نہ ہوئی زندگی موت کا مسئلہ ہو گیا۔' فہد کے یوں چلے جانے پر شارمین نے کہا۔

' اس کو چھوڑو۔ جلدی سے یہ ختم کرو۔' نسرین بیگم نے شارمین کا دھیان کھانے کی طرف کر دیا۔

' ا چھا اچھا۔' فرمانبرداری سے جواب آیا۔

' فنیش کر کہ برتن لا دو میں باقی برتن دھو کر ڈنر کی تیاری کرتی ہوں۔' یہ کہ کر نسرین بیگم  کمرے سے نکل گئیں۔

' چلو شکر کہ موبائل کی جان تو چھوڑی۔' شارمین شکر ادا کرتے ہوئے موبائل ہاتھ میں لے چکی تھی۔ آخر اپنی دوستوں کو بھی تو آج کی کہانی سنانی تھی نہ۔ شارمین نے جلدی سے وٹس ایپ کھولا اور "وش" میں سلام کا میسج کیا۔

"وش"  اِن کے گروپ کا نام تھا۔ جس کی بنیاد ایشل نے رکھی تھی۔ اس گروپ میں تین سہلیاں تھیں۔ ایک تھی ہماری شارمین عرف شانی، ایک کیوٹ سی ایشل عرف  ایشو اور تیسری اور آخری تھی ونیسہ عرف ونی۔ 

کہنے کو تو تینوں  کی دوستی کالج میں ہوئی تھی مگر کوئی بھی انھیں دیکھ کر ایسا نہیں مانتا تھا۔ شارمین کی زندگی میں اپنی فیملی کے بعد اگر کسی کی اہمیت تھی، تو وہ ایشل اور ونیسہ کی تھی۔ ان تینوں کا گروپ پرفیکٹ تھا۔ کالج میں کنتی ہی لڑکیاں ان کی دوستی سے حسد کرتی تھیں۔ وجہ ان تینوں کا وہ رشتہ تھا جو چٹان جیسا مظبوط تھا۔ ان تینوں میں ایشل تھوڑی سنجیدہ مزاج کی تھی لیکن شارمین اور ونیسہ کے ساتھ مل کر ایشل کی سنجیدگی کہیں غائب ہو جاتی تھی۔ ونیسہ اس گروپ کی سب سے شیطان لڑکی تھی لیکن جتنی وہ شیطان تھی دل کی اتنی ہی نرم۔ شارمین سے لڑنا اور اسے ستانا گویا ونیسہ نے خود پر فرض کیا ہوا تھا۔ شارمین اور ونیسہ کی لڑائیاں پوری کلاس میں مشہور تھی۔ ونیسہ شارمین کو بہت زیادہ تنگ کرتی تھی۔ کبھی لیکچر کے دوران لکھتے ہوئے پین چھین لیتی تو کبھی پانی کی بوتل سر پر انڈیل دیتی جس پر شارمین تو مسکرا دیتی لیکن ایشو ہر وقت  'باز آ جاو ونی' کی تنبیہہ کرتی تو جواب میں ونیسہ کہہ دیتی کہ 'جس دن پشوگے مجھے خود منع کرے گی میں تنگ کرنا چھوڑ دوں گی۔' کیونکہ شارمین نے آج تک ونیسہ کی کسی بھی شیطانی پر اسے ٹوکا نہیں تھا تبھی وہ شیرنی بنی ہوئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود بھی شارمین اور ونیسہ کا ایک دوسرے کے بنا گزارا ممکن نہیں تھا۔

' پشوگے کیا کر رہی ہو؟' ونی کا میسج آیا۔

 ' کچھ بھی نہیں بس ابھی موبائل لے کر بیٹھی ہوں۔'  شارمین نے جواب دیا۔

' اور یہ ایشو کہاں ہے؟' 

' وہ آج کل اڈمیشن کے چکر میں مصروف رہتی ہی۔' ونیسہ نے کہا۔ 

'ہممم۔۔ چلو صحیح، ونی پرائویٹ میں آجاو، ورنہ پھر ایشو کہے گی :" بغرتوں یہ اتنے سارے میسیجز میرا شوہر آ کر پڑھے گا؟" شارمین نے ہنستے ہوئے کہا۔

 ' ہاہاہا۔۔۔ سچ کہا چلو آو۔' ونیسہ بھی ہنسی اور پرائیویٹ چیٹ میں آگئی۔

'ہاں جی تو اب بولو۔ دماغ درست ہوا کہ نہیں؟' ونیسہ نے پوچھا۔

'نہیں ویسے کا ویسا ہی ہے۔' شارمین نے 'مطمئین بغرت' بنتے ہوئے جواب دیا۔

'اللہ ہی رحم کرے۔' ونی نے ہنستے ہوئے سر ہلایا۔ 

دراصل آج کل شارمین کا دماغ ایک ٹک ٹاکر پر تھراب یعنی خراب ہو گیا تھا ،جو کہ اس کی جان (یعنی کہ ونیسہ) کو  کوجے باندر کے علاوہ کچھ نہیں لگتا تھا اور اس نے باقاعدہ دھمکی بھی دے رکھی تھی کہ ' اگر اس کوجے باندر سے تمھاری شادی ہوئی نہ تو میں نے تمہارا بائے کوٹ کر دینا ہے۔'

'یار ونی اگر سچ میں میری شادی اس سے ہو گئی تو؟' شارمین نے ونیسہ کو تنگ کرنے کی غرض سے کہا، اس بات سے بے خبر کہ قبولیت کی گھڑی کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ 

'شارمین۔۔' ونیسہ نے رونے والے ایموجی بھیجے۔

'جیسے ہی میں نے یہ میسج پڑھا آذان ہو گئی۔'

پیروں تلے زمین نکلنا کسے کہتے ہیں شارمین کو اب سمجھ آیا تھا۔

*******************

لندن میں صبح کے دس بجے، جہاں سارا جہان اپنے کاموں میں مصروف تھا، وہیں ایک انسان ایسا بھی تھا جو کمرے میں مکمل اندھیرا کیے بیڈ پر اوندھے منہ سویا ہوا تھا۔ ایک بازو بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا جبکہ دوسرا تکیہ کے نیچے تھا۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی جسے موبائل کی آواز نے توڑا۔ اس سوئے ہوئے وجود نے نیند میں ہی موبائل اٹھایا اور بنا نام دیکھے کال یس کی۔

'ہیلو!' نیند میں ڈوبی آواز میں کہا گیا۔

' دونٹ ٹیل می یو آر سلیپنگ!' دوسری جانب سے چیخ کر پوچھا گیا اور وہ جو نیند میں تھا گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔

' تانی یار کیا مسئلہ ہے کیوں چیخ رہی ہو۔' نہایت ہی جھنجھلاہ کے پوچھا گیا۔

' یہ آپ پوچھ رہے ہیں؟ سیریسلی۔۔' تانیہ عرف تانی نے صدمے کی سی کیفیت میں کہا۔

' یعنی کہ آپ بھول گئے ہیں؟'  روہانسی آواز آئی۔ 

وہ جو دوبارا سونے کے چکر میں تھا،  تانی کی  آواز سن کر بےچین ہو گیا۔

' نہیں یار میں نہیں بھولا اور رو کیوں رہی ہو'۔ سب کچھ ایک طرف، وہ تانی کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔

' میں آپ کو بہت یاد کرتی ہوں۔' تانی نے نم لہجے میں کہا۔

' سوری یار میں بتانا بھول گیا تھا کہ میرا کچھ کام پنڈنگ ہے تو  آج نہیں آ رہا۔ انشاءاللہ  سنڈے کو آؤں گا'۔ لہجے کو اداس بنا کر بولا گیا، مگر گہری بھوری آنکھوں میں، جن پر ہزاروں لڑکیاں فدا تھیں، شرارت ناچ رہی تھی۔

' اچھا۔' ایک لفظی جواب کے بعد خاموشی چھائی گئی۔ 

' ہیلو؟؟ ہیلو تانی۔۔۔' کال کٹ چکی تھی۔

 وہ اپنے خوبصورت بال جو ہر وقت جل سے سیٹ کیے ہوتے تھے اور اس وقت پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے انہیں ہاتھ سے پیچھے کرتا، مسکراتا ہوا اٹھا اور کپڑے لے کر فریش ہونے چلا گیا۔

اونچا قد، خوبصورت کالے بال جنھیں وہ ایک سٹائل سے ہاتھ سے پیچھے کرتا تو لڑکیاں دیکھتی رہ جاتیں، گہری بھوری آنکھیں جن پر ہزاروں  لڑکیاں فدا تھیں۔۔ انھیں  دیکھتے ہی اس کی  بھوری آنکھوں  میں بےزاری آجاتی تھی۔ لڑکیاں اس سے بات کرنے کی کوشش کرتیں تو وہ اگنور کر دیتا۔ اس نے آج تک کسی کو بھی اہمیت نہیں دی تھی اس  سب کے باوجود بھی وہ یونیورسٹی کی لڑکیوں کا کرش تھا۔  وہ بلاشبہ ایک ہنڈسم باندر میرا مطلب ہے کہ ہنڈسم مرد تھا۔ جو کہ اپنی ٹک ٹاک ویڈیوز کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ وہ اور کوئی نہیں بلکہ پائیز مجتبیٰ  تھا۔ جس پر بقول ونیسہ کے اپنی شانی کا دماغ تھراب تھا۔

جیسے ہی وہ فریش ہو کر باہر آیا، بیڈ پر پڑا فون بجنے لگا۔ پائیز نے بےزاری سے  آنکھیں گھمائی اور ٹاول سے بال خشک کرتے ہوئے فون اٹھایا۔

' !Hello Paiez Mujtaba Speaking' پائیز  نے اپنے ازلی مغرور لہجے میں کہا۔

' Hey Paiez! How're you? I heard you're going back to Pakistan.' سٹیلا کی  آواز آئی۔

' .Yes I\'m going ' بےنیازی سے کہا گیا۔

' ?When will you come back' سٹیلا نے پوچھا۔

' !Never! Now I've to go. Goodbye'
پائیز نے سنجیدگی سے کہا اور بنا جواب سنے فون بند کر کہ سٹیلا کا نمبر بلاک کر دیا۔ سٹیلا  پائیز کی کلاس میٹ تھی۔ پائیز شروع سے ہی لڑکیوں سے دور بھاگتا تھا۔  پتا نہیں کیسے سٹیلا کو کہیں سے  پائیز کا نمبر مل گیا تھا اور اس وعدہ پر کہ سٹیلا  صرف دوستی تک ہی محدود رہے گی، پائیز مجتبٰی سٹیلا  سے تھوڑی بہت بات چیت کر لیتا تھا۔ ورنہ باقیوں کو تو گھاس بھی نہیں ڈالتا تھا۔

وہ ایسا ہی تھا کسی کی پرواہ نہ کرنے والا اور کسی حد تک خود غرض بھی۔ لیکن یہ لاپروائی اور خود غرضی پائیز کو آگے جا کر بھاری پڑنے والی تھی۔

*******************

مجتبٰی غازیان کے تین بچے تھے ۔ بڑا بیٹا دائم مجتبٰی  تھا۔ دائم اپنے والد کے ساتھ بزنس میں مدد کرتا تھا۔ دائم کی ایک مہینے پہلے اپنی کلاس فیلو اقراء سے شادی ہوئی تھی۔ اقراء دل کی بہت اچھی تھی۔ وہ تانی کو بلکل اپنی چھوٹی بہن کی طرح ٹریٹ کرتی تھی۔ اپنے اچھے اخلاق و عادات کی وجہ سے وہ گھر بھر کو عزیز ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ پائیز  مجتبٰی ، جو کسی سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا تھا، اس کی بھی اقراء سے خوب بنتی تھی۔ 

 پھر تھا پائیز مجتبٰی ، مجتبٰی غازیان کا دوسرا سپوت۔ جو کہ پڑھائی کے سلسلے میں لندن میں ہوتا تھا اور ٹائم پاس کے لیے ٹک ٹاک ویڈیوز بناتا تھا۔ آج، یعنی چار سال بعد اس کی پاکستان واپسی تھی۔ لیکن تانی کو سرپرائز دینے کے لئے جھوٹ بولا تھا کیوں کہ تانی کی برتھڈے آنے والی تھی۔

پھر تھی مجتبٰی غازیان کی سب سے چھوٹی اور گھر بھر کی لاڈلی، معصوم سی کیوٹ سی گڑیا  تانیہ مجتبٰی۔ پائیز اور دائم  کی تو جان بستی تھی تانی میں۔ تانیہ FSc. کی اسٹوڈنٹ تھی۔

*******************

جار

   13
7 Comments

Muskan khan

04-Oct-2022 09:36 PM

بہت خوبصورت 🌺🌺

Reply

Muskan Malik

04-Oct-2022 08:09 PM

ماشاءاللہ❤️ ماشاءاللہ❤️

Reply

Anuradha

10-Sep-2022 03:52 PM

واہ واہ بہت خوبصورت لکھا ہےآپ نے👍👍

Reply